Thursday 29 December 2016

جل گیا دل مگر ایسے جوں بلا نکلے ہے

جل گیا دل، مگر ایسے جوں بلا نکلے ہے
جیسے لوں چلتی مِرے منہ سے ہوا نکلے ہے
لختِ دل، قطرۂ خوں، ٹکڑے جگر ہو ہو کر
کیا کہوں میں کہ مِری آنکھوں سے کیا نکلے ہے
میں جو ہر سو لگوں ہوں دیکھنے ہو کر مضطر
آنسو ہر میری نگہ ساتھ گتھا نکلے ہے
پارسائی دھری رہ جائے گی مسجد میں شیخ
جو وہ اس راہ کبھو مستی میں آ نکلے ہے
گو کہ پردہ کرے جوں ماہ شبِ ابر وہ شوخ
کب چھپا رہتا ہے، ہر چند چھپا نکلے ہے
بھیڑیں ٹل جاتی ہیں آگے سے اس ابرو کے ہلے
سینکڑوں میں سے وہ تلوار چلا نکلے ہے
بنتی ہے سامنے اس کے کیۓ سجدہ ہی ولے
جی سمجھتا ہے جو اس بت میں ادا نکلے ہے
اجر سے خالی نہیں عشق میں مارے جانا
دے ہے جو سر کوئی کچھ یاں سے بھی پا نکلے ہے
لگ چلی ہے مگر اس گیسوئے عنبر بو سے
ناز کرتی ہوئی اس راہ صبا نکلے ہے
کیا ہے اقبال کہ اس دشمنِ جاں کے آتے
منہ سے ہر ایک کے سو بار دعا نکلے ہے
سوز سینے کا بھی دلچسپ بلا ہے اپنا
داغ جو نکلے ہے چھاتی سے لگا نکلے ہے
سارے دیکھے ہوئے ہیں دلی کے عطار و طبیب
دل کی بیماری کی کس پاس دوا نکلے ہے
کیا فریبندہ ہے رفتار ہے کینے کی جدا
اور گفتار سے کچھ پیار جدا نکلے ہے
ویسا بے جا نہیں دل میؔر کا جو رہ نہ سکے
چلتا پھرتا کبھو اس پاس بھی جا نکلے ہے

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment