اچھی ہے تجھ میں کوئی شے اسے نہ غارت کر
جو ہو سکے تو کہیں دل لگا محبت کر
ادا یہ کس کٹے پتے سے تو نے سیکھی ہے
ستم ہوا کا ہو اور شاخ سے شکایت کر
نہ ہو مخل مِرے اندر کی ایک دنیا میں
وہ اپنے آپ نہ سمجھے گا تیرے دل میں ہے کیا
خلش کو حرف بنا حرف کو حکایت کر
مِرے بنائے ہوئے بت میں روح پھونک دے اب
نہ ایک عمر کی محنت مِری اکارت کر
کہاں سے آ گیا تو بزم کم یقیناں میں
یہاں نہ ہو گا کوئی خوش ہزار خدمت کر
کچھ اور چیزیں ہیں دنیا کو جو بدلتی ہیں
کہ اپنے درد کو اپنے لیے عبارت کر
نہیں عجب اسی پل کا ہو منتظر وہ بھی
کہ چھولے اس کے بدن کو ذرا سی ہمت کر
خلوص تیرا بھی اب زد میں آ گیا بانیؔ
یہاں یہ روز کے قصے ہیں جی برا مت کر
منچندا بانی
No comments:
Post a Comment