میانِ چشم و دل ہیں آتشیں موجوں کے دریا
سلگتے آنسوؤں میں ڈھل گئے یادوں کے دریا
رہی زیرِ قدم کیوں نیند میں بھی ارضِ وحشت
تلاطم خیز تھے دل میں کئی خوابوں کے دریا
ٹھہرتی کیا نظر کوئی تڑپتے آئینے پر
یونہی اس سر زمیں پر تم نہیں ہو خرم و شاد
کہ زیرِ خاک ہیں کتنے غموں آہوں کے دریا
عبث ہے ڈھونڈنا مٹی میں اب کھوئے ہوئے رنگ
یہ مٹی پی چکی ہے کتنی تہذیبوں کے دریا
سکوتِ نیل بھی اور اک فراتِ خونچکاں بھی
ہمارے عصر تک آئے ہیں فرعونوں کے دریا
کہاں تھی میرے خال و خد میں آب و تاب ایسی
حصار آور رہے کچھ دیر ان باہوں کے دریا
جاوید احمد
No comments:
Post a Comment