Wednesday 28 December 2016

ہجراں کی شب جو درد کے مارے اداس ہیں

ہجراں کی شب جو درد کے مارے اداس ہیں
ان کی نظر میں چاند ستارے اداس ہیں
آنکھیں وہ پھر گئیں کہ زمانہ الٹ گیا
جیتے تھے جو نظر کے سہارے اداس ہیں
کیا ہیر اب کہیں ہے نہ رانجھے کا جانشیں
کیوں اے چناب! تیرے کنارے اداس ہیں
بہتر ہے ہم بھی چشم جہاں بِیں کو موند لیں
دنیا کے اب تمام نظارے اداس ہیں
محروؔم کیا کلام بھی اپنا فنا ہوا
کیوں ہم کو کھو کے دوست ہمارے اداس ہیں

تلوک چند محروم

No comments:

Post a Comment