Wednesday, 28 December 2016

چیز چمکیلی سی بیٹھی تھی مرے پھن میں تنی

چیز چمکیلی سی بیٹھی تھی مِرے پھن میں تنی
سنگِ اسود کا کوئی ٹکڑا تھا، یا پارس منی
کھٹکھٹائیں کس کا در اس شہر کے دریوزہ گر
گانٹھ کے پکے ہیں دونوں، شوم کیا اور کیا غنی
اک زمرد وقت آنے پر اگلنا ہی پڑا
بھول سے وہ کیوں نگل بیٹھی تھی ہیرے کی کنی
رات کس کا بخت جاگا تھا، بتا، اے نازنیں
آنکھ بھی ہے سوئی سوئی، زلف بھی ہے ان منی
اک چونی بھی نہیں، جیبیں الٹ کر دیکھ لیں
یوں تو اپنے رام ہیں ہر شام قسمت کے دھنی
اک نچی سی فاختہ تھی صبح کو وہ فاحشہ 
رات بیٹھی تھی وہ کوٹھے پر سجی، سنوری، بنی
ق 
گھر کی ہر اک اینٹ جیسے روکتی ہی رہ گئی 
جاؤ مت اس وقت، دیکھو، رات ہے کتنی گھنی
سنگ دل تھا پر کپل وستو کا شہزادہ، جسے
روک کب سکتے تھے بچہ اور جیون سنگنی
پڑھنے والوں کا بھی سینہ چھید ڈالے گی غزل
لفظ ہر اک یوں تنا ہے جیسے نیزے کی انی

ستیہ پال آنند

No comments:

Post a Comment