Wednesday 28 December 2016

بوڑھا دڑھیل پیڑ تھا جانے کس طوفان میں اکھڑا تھا

بوڑھا دڑھیل پیڑ تھا، جانے کس طوفان میں اُکھڑا تھا
کیا دیکھوں اب پیچھے مڑ کر، میں کب گھر سے اجڑا تھا
چوکھٹ پر آنکھیں دفنائیں، دروازے سے پیار کیا
ستیہ پال آنند کی ہجرت کا بس اتنا دکھڑا تھا
پھٹے پرانے کپڑے تھے اس بھیک مانگتے بچے کے
پتی پتی بکھری ہوئی تھی، پھول بھی ادھڑا ادھڑا تھا
پیٹھ پر اپنی لاد کے جس کو ڈھوتا رہا میں جنم جنم
آمر، جابر، سخت گیر وہ آسمان کا کبڑا تھا
کس کو سناتا میں شعروں میں بن باسوں کی رام کتھا
چودہ برس کی بات نہیں تھی، جیون بھر کا دکھڑا تھا
ماں کی گود میں لیٹے ننھے بچے کی غوں غاں، جیسے
کسی غزل کا مطلع تھا، یا کسی گیت کا مکھڑا تھا
آنکھ مچولی کھیل رہا تھا روشن رخ سے اندھیارا
کالی زلف کا بادل تھا اور چندرما سا مکھڑا تھا
ڈھے کر بہہ جانا ہی میرا انت سمے کا تھا قصہ
میں تو آنندؔ اکھڑی جڑوں کا ندی کنارے رکھڑا تھا

ستیہ پال آنند

No comments:

Post a Comment