Saturday 31 December 2016

بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں گوشوارہ خواب

بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں گوشوارۂ خواب
سو ہم اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں خسارۂ خواب
وہ اک چراغ مگر ہم سے دور دور جلا
ہمیں نے جس کو بنایا تھا استعارۂ خواب
چمک رہی ہے اک آواز میرے حجرے میں 
کلام کرتا ہے آنکھوں سے اک ستارۂ خواب
میں اہلِ دنیا سے مصروفِ جنگ ہو جاؤں
کہ پچھلی رات ملا ہے مجھے اشارۂ خواب
عجب نہیں مِری نیندیں بھی جل اٹھیں اس بار
دبا ہوا مِرے بستر میں ہے شرارۂ خواب 

سالم سلیم

No comments:

Post a Comment