سامنے رکھ کے تِرے تجھ سے چھپایا گیا ہوں
میں تجھے ایک ہی پہلو سے دکھایا گیا ہوں
جا رہا ہوں کہیں پیغامِ محبت لے کر
پھول ہوں اور کسی دریا میں بہایا گیا ہوں
یہ جو ترتیب سے عاری ہیں در و بام مِرے
اتنی آساں بھی نہیں دوست جراحت میری
عام سا زخم سہی دل پہ لگایا گیا ہوں
کبیر اطہر
No comments:
Post a Comment