Friday, 30 December 2016

آؤ نا بھیگے بھیگے موسم میں

آؤ نا 
بھیگے بھیگے موسم میں
بھیگے بھیگے منظر
ساکت لمحوں کی آنکھوں میں
صدیوں کی ویرانی جیسے
بھیگے بھیگے منظر

ریل کےسُونے اسٹیشن پر رکھے
خالی بینچ کے جیسے
تنہا اور چپ چاپ
اداس
ملول
اور
تھکن سے ہارے
بھیگے بھیگے منظر
بِرہا کی اگنی میں سلگتے
یادوں کے صندل میں لپٹے
بھیگی پلکوں کے ہمجولی
بھیگے بھیگے منظر
لیکن ان کا سارا سُونا پن ہے جانم
دو نینوں کی مار
چار آنکھوں سے دیکھا جاۓ
تو ہنس دیتا ہے
یہ موسم
بھیگا بھیگا موسم
اور یہ بھیگے بھیگے منظر

بشریٰ حزیں

No comments:

Post a Comment