آؤ نا
بھیگے بھیگے موسم میں
بھیگے بھیگے منظر
ساکت لمحوں کی آنکھوں میں
صدیوں کی ویرانی جیسے
بھیگے بھیگے منظر
ریل کےسُونے اسٹیشن پر رکھے
خالی بینچ کے جیسے
تنہا اور چپ چاپ
اداس
ملول
اور
تھکن سے ہارے
بھیگے بھیگے منظر
بِرہا کی اگنی میں سلگتے
یادوں کے صندل میں لپٹے
بھیگی پلکوں کے ہمجولی
بھیگے بھیگے منظر
لیکن ان کا سارا سُونا پن ہے جانم
دو نینوں کی مار
چار آنکھوں سے دیکھا جاۓ
تو ہنس دیتا ہے
یہ موسم
بھیگا بھیگا موسم
اور یہ بھیگے بھیگے منظر
بشریٰ حزیں
No comments:
Post a Comment