درد بے حد سا کوئی ڈھنگ کا آزار تو ہو
زیست کرنے کے لیے سر پہ اک پندار تو ہو
تجھ پہ بھی شہر کے کھل جائیں گے اسرار و رموز
تُو بھی میری طرح رسوا سرِ بازار تو ہو
ہم نہیں کوچۂ جاناں میں کوئی سہل پسند
لب ہوں خاموش تو خاموشئ لب ہی بولے
کچھ تِری بزم میں آزادئ اظہار تو ہو
آپ کے ہاتھ ہی بک جائیں گے بکنا ہی تو ہے
بس اسی سوچ میں ہیں گرمئ بازار تو ہو
دل کی سنتے ہی بھلا کب ہیں زمانے والے
کم سے کم عشق کا اظہار سرِ دار تو ہو
سعید الظفر صدیقی
No comments:
Post a Comment