Thursday 29 December 2016

درد بے حد سا کوئی ڈھنگ کا آزار تو ہو

درد بے حد سا کوئی ڈھنگ کا آزار تو ہو
زیست کرنے کے لیے سر پہ اک پندار تو ہو
تجھ پہ بھی شہر کے کھل جائیں گے اسرار و رموز
تُو بھی میری طرح رسوا سرِ بازار تو ہو
ہم نہیں کوچۂ جاناں میں کوئی سہل پسند
راہ لینے کے لیے سامنے کوئی دیوار تو ہو
لب ہوں خاموش تو خاموشئ لب ہی بولے
کچھ تِری بزم میں آزادئ اظہار تو ہو
آپ کے ہاتھ ہی بک جائیں گے بکنا ہی تو ہے
بس اسی سوچ میں ہیں گرمئ بازار تو ہو
دل کی سنتے ہی بھلا کب ہیں زمانے والے
کم سے کم عشق کا اظہار سرِ دار تو ہو

سعید الظفر صدیقی

No comments:

Post a Comment