جہاں سے آۓ تھے شاید وہیں چلے گئے ہیں
وہ صاحبانِ بشارت کہیں چلے گئے ہیں
زمیں پہ رینگتے رہنے کو ہم جو ہیں موجود
جو اہلِ شرم تھے زیرِ زمیں چلے گئے ہیں
بہشت ہے کہ نہیں ہے یہ تو ہی جانتا ہے
دکھائ دیں گے کبھی وقت کے جھروکوں سے
وہ لوگ اب بھی یہیں ہیں، ہمیں چلے گئے ہیں
وہی ہوا ہے جو ہوتا ہے سونے والوں سے
اے میرے دل! تِرے پہلو نشیں چلے گئے ہیں
ہماری آنکھ شناوؔر ہوئی ہے کیا نم ناک
سخن سراؤں سے زہرہ جبیں چلے گئے ہیں
شناور اسحاق
No comments:
Post a Comment