عالی جس کا فنِ سخن میں اک انداز نرالا تھا
نقدِ سخن میں ذکر یہ آیا، دوہے پڑھنے والا تھا
چند نئے شعروں کے شعلے کیسی لے میں بھڑکتے تھے
تم آ کر سنتے تو سہی کل ساری رات اجالا تھا
جانے کیوں لوگوں کی نظریں تجھ تک پہنچیں ہم نے تو
کیا وہ گھٹا تیرے گھر سے اٹھی، کیا وہ تُو نے بھیجی تھی
بوندیں روشن روشن تھیں، گو بادل کالا کالا تھا
اجنبیوں سے دھوکے کھانا پھر بھی سمجھ میں آتا ہے
اس کے لیے کیا کہتے ہو، وہ شخص تو دیکھا بھالا تھا
ہم نہ ملے اور جب بھی ملے تو دونوں نے اقرار کیا
ہاں وہ وعدہ ایسا تھا، جو پورا ہونے والا تھا
تپتی دھوپوں میں بھی آ کر ساتھ بہت دے جاتے ہیں
چاند نگر کے انشا صاحب، عالؔی جن کا ہالا تھا
جمیل الدین عالی
No comments:
Post a Comment