ہوش کسی کا بھی نہ رکھ جلوہ گہِ نماز میں
بلکہ خدا کو بھول جا، سجدۂ بے نیاز میں
رازِ نشاطِ خلد ہے خندۂ دل نواز میں
غیب و شہود کے رموز نرگسِ نیم باز میں
آج تو اضطرابِ شوق حد سے سوا گزر گیا
اس سے زیادہ اور کیا شوخئ نقش پا کہوں
برق سی اِک چمک گئی آج سرِ نیاز میں
پردۂ دہر کچھ نہیں، ایک ادائے شوخ ہے
خاک اٹھا کے ڈال دی دیدۂ امتیاز میں
اے دلِ شوخ و حِیلہ جو، زیرِ کمینِ رنگ و بو
طاہر قدس کو بھی لے، دام گہِ مزاج میں
سب ہے ادائے بیخودی، ورنہ ادائے حسن کیا
ہوش کا جب گزر نہیں، اس کی حرِیم ناز میں
اصغر گونڈوی
No comments:
Post a Comment