Thursday 29 December 2016

ہوش کسی کا بھی نہ رکھ جلوہ گہ نماز میں

ہوش کسی کا بھی نہ رکھ جلوہ گہِ نماز میں 
بلکہ خدا کو بھول جا، سجدۂ بے نیاز میں 
رازِ نشاطِ خلد ہے خندۂ دل نواز میں
غیب و شہود کے رموز نرگسِ نیم باز میں
آج تو اضطرابِ شوق حد سے سوا گزر گیا
اور بھی جان پڑ گئی عشوۂ جاں گداز میں
اس سے زیادہ اور کیا شوخئ نقش پا کہوں
برق سی اِک چمک گئی آج سرِ نیاز میں
پردۂ دہر کچھ نہیں، ایک ادائے شوخ ہے 
خاک اٹھا کے ڈال دی دیدۂ امتیاز میں
اے دلِ شوخ و حِیلہ جو، زیرِ کمینِ رنگ و بو 
طاہر قدس کو بھی لے، دام گہِ مزاج میں
سب ہے ادائے بیخودی، ورنہ ادائے حسن کیا 
ہوش کا جب گزر نہیں، اس کی حرِیم ناز میں

اصغر گونڈوی

No comments:

Post a Comment