Saturday 31 December 2016

وہ زندگی کہ جس میں اذیت نہیں کوئی

وہ زندگی کہ جس میں اذیت نہیں کوئی
اک خواب ہے کہ جسکی حقیقت نہیں کوئی
میری وفا کو زلف و لب و چشم سے نہ دیکھ
کارِ خلوصِ ذات کی اجرت نہیں کوئی
تسلیم تیرے ربط و خلوص و وفا کے نام
خوش ہوں کہ ان میں لفظِ محبت نہیں کوئی
خلوت میں گر وجود پہ اصرار ہو تو ہو
بازار میں تو ذات کی قیمت نہیں کوئی
ہم برزخِ وفا کے جزا یافتوں کے پاس
اک جسم ہے سو جسم کی جنت نہیں کوئی
ہر فیصلے کو روزِ قیامت پہ چھوڑ دیں
اس جبر سے تو بڑھ کے قیامت نہیں کوئی
یہ شہر قتل گاہ نہیں پھر بھی اے سحؔر
کیا قہر ہے کہ جسم سلامت نہیں کوئی

سحر انصاری

No comments:

Post a Comment