Friday 30 December 2016

رات پھر ان کا انتظار رہا

واردات

رات پھر ان کا انتظار رہا
رات پھر گاڑیاں گزرتی ہیں
وہ کوئی دم میں آئے جاتے ہیں
راہیں سرگوشیاں ہی کرتی رہیں
ایک امید باز دید جو تھی
دل کبھی یاس آشنا نہ ہوا
کب ہوئے وہ نگاہ سے اوجھل
کب انہیں سامنے نہیں پایا
رات پھر میں نے ان سے باتیں کی
رات تک میرے پاس تھے گویا
ہونٹ، رخسار، کا کلیں، باہیں
ایک اک چھو کے دیکھ سکتا تھا
پڑ گیا سست رات کا جادو
دیکھتے دیکھتے سماں بدلا
ہولے ہولے سرک گئے تارے
چاند کا رنگ پڑ گیا پھیکا
اور پھر مشرقی جھروکے سے
صبح دم آفتاب نے جھانکا
در پہ باہر کسی نے دستک دی
(ڈاکیا ڈاک لے کے آیا تھا)
ایک دو ہی تو لفظ تھے خط میں 
اب سکوں آشنا ہیں دیدہ و دل
اب کریں انتظار تو کس کا
وہ حسیں ہونٹ وہ حسیں آنکھیں
پھول سا جسم، چاند سا چہرہ
عنبریں زلفیں، مخملیں باہیں
آج تک جن کا لمس باقی تھا
اب فقط ان کی یاد باقی ہے
لٹ گیا عشق کا سروساماں
شہرِ امید ہو گیا ہے ویراں
اس کی اک روئیداد باقی ہے
ایک اجڑا سواد باقی ہے

ابن انشا

No comments:

Post a Comment