کیا کشت و خوں پہ ان دنوں میلانِ یار ہے
ہر جائے پوچھتا ہے کہ یاں کچھ شکار ہے
جاتا ہے اس کشندے کی جان چلا ہوا
صیدِ ازل رسیدہ ہے دل بے قرار ہے
آنکھیں جو میری باز ہیں جوں صید بسملی
عزت جو اس گلی میں ہے اپنی نہ پوچھیے
جب جائیے تو خشم ہے، گالی ہے، مار ہے
جانیں چلی گئیں ہیں بہت قلب گاہ سے
تُو رہ کے جا، کہ راہ ابھی پُر غبار ہے
کم اختلاطی کا ہے گلہ یار سے عبث
کس کشتۂ وفا سے بہت اس کو پیار ہے
گل شگفتگی ہے تِرے چہرے سے عیاں
کچھ آج میری جان قیامت بہار ہے
کیا میؔر تم کو گریۂ شب سے ہے گفتگو
طوفان میری پلکوں کا سر در کنار ہے
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment