بتاؤں کیا کہ میرے دل میں کیا ہے
سوا تیرے، تِری محفل میں کیا ہے
یہاں بھی تجھ کو تنہا میں نے پایا
تُو ہی تُو ہے بھری محفل میں کیا ہے
کسی کے بجھتے دل کی ہے نشانی
بجز نقشِ پشیمانئ قاتل
نگاہِ حسرتِ بسمل میں کیا ہے
جفاؤں کی بھی حد ہوتی ہے کوئی
خدا معلوم اس کے دل میں کیا ہے
مآلِ ہستئ موہوم معلوم
عزیؔز اس شغلِ لاحاصل میں کیا ہے
عزیز لکھنوی
No comments:
Post a Comment