Saturday, 31 December 2016

وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی

وہ دل بر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی
انہیں کے نام دل کی ڈائری کرنی پڑے گی 
وہ ان کو جانتے ہیں اور ان کے حال دل کو 
سو ان کے دوستوں سے دوستی کرنی پڑے گی 
ہمارے درمیاں یہ دکھ ہی قدرِ مشترک ہیں 
سو ہم کو اجتماعی خودکشی کرنی پڑے گی 
بدن کو روح سے محروم کر ڈالا گیا ہے 
بسر اس طور ہی اب زندگی کرنی پڑے گی 
بلایا جائے کیسے اس شناسائے سخن کو 
[بپا اک بزمِ شعر و شاعری کرنی پڑے گی 
نگاہوں کے سفر میں تُو اگر دریا ہے مجھ کو 
ادا نہ جان و دل کی تشنگی کرنی پڑے گی 
بہت مدت سے ہنسنا بھول کر بیٹھی ہوئی ہوں 
تمہیں رخشندؔہ شاید گدگدی کرنی پڑے گی 

رخشندہ نوید

No comments:

Post a Comment