وہ دل بر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی
انہیں کے نام دل کی ڈائری کرنی پڑے گی
وہ ان کو جانتے ہیں اور ان کے حال دل کو
سو ان کے دوستوں سے دوستی کرنی پڑے گی
ہمارے درمیاں یہ دکھ ہی قدرِ مشترک ہیں
بدن کو روح سے محروم کر ڈالا گیا ہے
بسر اس طور ہی اب زندگی کرنی پڑے گی
بلایا جائے کیسے اس شناسائے سخن کو
[بپا اک بزمِ شعر و شاعری کرنی پڑے گی
نگاہوں کے سفر میں تُو اگر دریا ہے مجھ کو
ادا نہ جان و دل کی تشنگی کرنی پڑے گی
بہت مدت سے ہنسنا بھول کر بیٹھی ہوئی ہوں
تمہیں رخشندؔہ شاید گدگدی کرنی پڑے گی
رخشندہ نوید
No comments:
Post a Comment