عشق کو کشف کیا حسن کا قائل ہوا میں
اور پھر اپنے لیے کلمۂ باطل ہوا میں
راس آتی نہیں اب میرے لہو کو کوئی خاک
ایسا اس جسم کا پابندِ سلاسل ہوا میں
سارے اسرارِ فنا کھلتے رہے صبح تلک
اور پھر میری خموشی میں بھنور پڑنے لگے
دمِ رخصت تِری آواز کا ساحل ہوا میں
سہل کرتا رہا جتنا بھی مجھے میرا عدم
کارِ ہستی کی طرح اتنا ہی مشکل ہوا میں
سالم سلیم
No comments:
Post a Comment