Wednesday 28 December 2016

کسی کے خواب کو احساس سے باندھا ہوا ہے

کسی کے خواب کو احساس سے باندھا ہوا ہے
بہت پختہ بہت ہی پاس سے باندھا ہوا ہے
ہمارے تخت کو مشروط کر رکھا ہے اس نے
ہمارے تاج کو بَن باس سے باندھا ہوا ہے
سیاہی عمر بھر میرے تعاقب میں رہے گی
کہ میں نے جسم کو قرطاس سے باندھا ہوا ہے
مِرے اثبات کی چابی کو اپنے پاس رکھ کر
مِرے انکار کو احساس سے باندھا ہوا ہے
ہمارے بعد ان آبادیوں کی خیر کیجو
سمندر ہم نے اپنی پیاس سے باندھا ہوا ہے
سجا رکھی ہے اس نے اپنی خاطر ایک مسند
مِرے آفاق کو انفاس سے باندھا ہوا ہے
عجب پہرے مِرے افکار پر رکھے ہیں خالدؔ
عجب کھٹکا مِرے احساس سے باندھا ہوا ہے

خالد کرار

No comments:

Post a Comment