کسی کے خواب کو احساس سے باندھا ہوا ہے
بہت پختہ بہت ہی پاس سے باندھا ہوا ہے
ہمارے تخت کو مشروط کر رکھا ہے اس نے
ہمارے تاج کو بَن باس سے باندھا ہوا ہے
سیاہی عمر بھر میرے تعاقب میں رہے گی
مِرے اثبات کی چابی کو اپنے پاس رکھ کر
مِرے انکار کو احساس سے باندھا ہوا ہے
ہمارے بعد ان آبادیوں کی خیر کیجو
سمندر ہم نے اپنی پیاس سے باندھا ہوا ہے
سجا رکھی ہے اس نے اپنی خاطر ایک مسند
مِرے آفاق کو انفاس سے باندھا ہوا ہے
عجب پہرے مِرے افکار پر رکھے ہیں خالدؔ
عجب کھٹکا مِرے احساس سے باندھا ہوا ہے
خالد کرار
No comments:
Post a Comment