Wednesday, 28 December 2016

رہے گا جسم میں، اور جان سے گذارے گا

رہے گا جسم میں، اور جان سے گزارے گا
وہ روز لذتِ وجدان سے گزارے گا
نواز دے گا وہ بحرِ خود آگہی سے مجھے
پھر ایک عالمِ انجان سے گزارے گا
یہ عشق ذوق وسلیقۂ  بندگی ہے مجھے
یہ کفر کوچۂ ایمان سے گزارے گا
مِری سرشت کو نا ممکنات میں رکھ کر
وہ روز تازہ تر اِمکان سے گزارے گا
وہ اصل بات کو بین السطور لکھے گا
کہ بے سبب مجھے عنوان سے گزارے گا
یا خار زارِ حقیقت، یا آرزو کی شکست
وہ زندگی اِسی سامان سے گزارے گا
وہ بخش دے گا نئے ذائقے لبوں کو مگر
پھر ایک آتشِ ہیجان سے گزارے گا
وہ رنگ و چہرہ و نام و نسب کی بستی میں
عجیب فتنۂ پہچان سے گزارے گا
مجھے بھی نوچ ہی لے گا کہ اسکی عادت ہے
مجھے بھی حلقۂ  گُل دان سے گزارے گا
وہ اپنے سارے طلسمات پاس رکھے گا
مجھے ہی دشت و بیابان سے گزارے گا
میں رزمِ گاہِ بدن سے تو جیت جاؤں گا
وہ ایک معرکۂ جان سے گزارے گا
میں اس کے نام کی پیچیدگی سے نکلوں گا
وہ اپنی ذات کے عرفان سے گزارے گا
کبھی تو راہ میں مل جائے گا مجھے خالدؔ
کبھی تو دیدۂ حیران سے گزارے گا

خالد کرار

No comments:

Post a Comment