نہ پوچھ کتنے مضافات کا بنا ہوا ہے
یہ شہرِ غم ہے مِرے ہاتھ کا بنا ہوا ہے
کسی درخت کو جنگل میں ڈر نہیں لگتا
یہ آدمی ہے، جو خدشات کا بنا ہوا ہے
وہ جل پری تھی مگر خون پی گئی میرا
میں اس وجود کی بے مائیگی پہ روتا ہوں
مذاق ارض و سماوات کا بنا ہوا ہے
بہت زیادہ نہیں نیلے آسمان کی عمر
یہ نامراد مِرے ساتھ کا بنا ہوا ہے
فیصل عجمی
No comments:
Post a Comment