Wednesday 28 December 2016

نہ پوچھ کتنے مضافات کا بنا ہوا ہے

نہ پوچھ کتنے مضافات کا بنا ہوا ہے
یہ شہرِ غم ہے مِرے ہاتھ کا بنا ہوا ہے
کسی درخت کو جنگل میں ڈر نہیں لگتا
یہ آدمی ہے، جو خدشات کا بنا ہوا ہے
وہ جل پری تھی مگر خون پی گئی میرا
نشاں گلے پہ ابھی رات کا بنا ہوا ہے
میں اس وجود کی بے مائیگی پہ روتا ہوں
مذاق ارض و سماوات کا بنا ہوا ہے
بہت زیادہ نہیں نیلے آسمان کی عمر 
یہ نامراد مِرے ساتھ کا بنا ہوا ہے

فیصل عجمی

No comments:

Post a Comment