اک خلش بے سبب اٹھا لائے
ہم بھی کیسی طلب اٹھا لائے
یار گِریہ اٹھائے پھرتے تھے
اب کے موجِ طرب اٹھا لائے
کج کلاہی پہ حرف آیا تو
ایک شکوہ، جو اس سے کرنا تھا
ہم اسے زیرِ لب اٹھا لائے
آخری بار اس گلی میں گئے
اور الزام سب اٹھا لائے
خالد معین
No comments:
Post a Comment