Wednesday 28 December 2016

کیا غلط ہے کہ رو برو کوئی تھا

کیا غلط ہے کہ رو بہ رو کوئی تھا 
مجھ سے بھی محوِ گفت گو کوئی تھا 
اک عجب ضد کا شاخسانہ کہیں 
زخم اب تک جو بے رفو کوئی تھا
مجھ سے شیریں سخن بہت سے تھے
شہر میں تجھ سا خوبرو کوئی تھا 
خوب محفل میں دل لگا کہ وہاں 
تُو نہ تھا، تجھ سا ہو بہو کوئی تھا
اس کے اندر بھی اک اداسی تھی 
مجھ میں بھی زخمِ آرزو کوئی تھا 
چاند تھا، حیرتیں تھیں، باتیں تھیں 
رات بھر میرا ہم سبو کوئی تھا 
پشت سے وار بھی کیا اس نے 
دوست جیسا ہی وہ عدو کوئی تھا

خالد معین

No comments:

Post a Comment