کیا غلط ہے کہ رو بہ رو کوئی تھا
مجھ سے بھی محوِ گفت گو کوئی تھا
اک عجب ضد کا شاخسانہ کہیں
زخم اب تک جو بے رفو کوئی تھا
مجھ سے شیریں سخن بہت سے تھے
خوب محفل میں دل لگا کہ وہاں
تُو نہ تھا، تجھ سا ہو بہو کوئی تھا
اس کے اندر بھی اک اداسی تھی
مجھ میں بھی زخمِ آرزو کوئی تھا
چاند تھا، حیرتیں تھیں، باتیں تھیں
رات بھر میرا ہم سبو کوئی تھا
پشت سے وار بھی کیا اس نے
دوست جیسا ہی وہ عدو کوئی تھا
خالد معین
No comments:
Post a Comment