جل بجھی جب شمعِ دل، پیغامِ شام آیا تو کیا
مر چکی جب پیاس ساقی لے کے جام آیا تو کیا
تابِ جلوہ بھی تو ہو، وہ سُوۓ بام آیا تو کیا
چشم موسیٰ لے کے عشقِ تشنہ کام آیا تو کیا
گر چکی اک بار جب بجلی نگاہِ شوق پر
مدعاۓ دل سمجھ لیں گے اگر چاہیں گے وہ
میرے ہونٹوں تک سوال نا تمام آیا تو کیا
ظرفِ سائل بھی بدل، اے رحمتِ سائل نواز
مے سے پُر ان کانپتے ہاتھوں میں جام آیا تو کیا
پُر ہے تیرے ذکر سے اپنی حدیثِ زندگی
اس میں بھولے سے کہیں دل کا بھی نام آیا تو کیا
وہ نگاہِ تلخ جب خونِ تمنا کر چکی
پھر تصور میں کوئی شیریں کلام آیا تو کیا
خونِ دل ضائع نہ ہو مجھ کو بس اتنی فکر ہے
اپنے کام آیا تو کیا، غیروں کے کام آیا تو کیا
ہیں ابھی خاکسترِ ملاؔ میں کچھ چنگاریاں
شعلۂ ہستی قریبِ اختتام آیا تو کیا
آنند نرائن ملا
No comments:
Post a Comment