ایک عجیب راگ ہے، ایک عجیب گفتگو
سات سروں کی آگ ہے، آٹھویں سر کی جستجو
بجھتے ہوئے مِرے خیال، جن میں ہزارہا سوال
پھر سے بھڑک کے روح میں، پھیل گئے ہیں چار سو
تیرہ شبی پہ صبر تھا، سو وہ کسی کو بھا گیا
ہنستی ہوئی گئی ہے صبح، پیار سے آ رہی ہے شام
تیری شبیہ بن گئی ،وقت کی گرد ہو بہو
پھر یہ تمام سلسلہ، کیا ہے کدھر کو جائے گا
میری تلاش در بہ در، تیرا گریز کو بہ کو
خونِ جنوں تو جل گیا، شوق کدھر نکل گیا
سست ہیں دل کی دھڑکنیں، تیز ہے نبضِ آرزو
تیرا مِرا قصور کیا، یہ تو ہے جبرِ ارتقا
بس وہ جو ربط ہو گیا، آپ ہی پا گیا نمو
میں جو رہا ہوں بے سخن، یہ بھی ہے احترامِ فن
یعنی مجھے عزیز تھی اپنی غزل کی آبرو
جمیل الدین عالی
No comments:
Post a Comment