برہمی میں بھی وہ ابہام روا رکھتے تھے
کئی الفاظ تو مفہومِ وفا رکھتے تھے
اگلے وقتوں کے حسینوں سے گواہی لے لو
ہم بھی ایک اپنی جوانی کی ہوا رکھتے تھے
ہم جو آ پہنچے تو احساں ہے تیرا ہی، ورنہ
تا کہ ان پر سبھی الزام نہ لگنے پائیں
آپ من جاتے تھے اور ہم کو خفا رکھتے تھے
کس سلیقے کے تھے اجداد جو محبوبوں کو
بت سمجھتے تھے مگر نام خدا رکھتے تھے
دو جو الزام تو انشا کو سلیم احمد کو
یہی دونوں تو ہمیں سب سے جدا رکھتے تھے
ہم سے اچھے تھے وہ ناکام وہ گمنام جواں
کوئی تصویرِ تصور تو سجا رکھتے تھے
جب بھی تاریخ ادب پڑھتا ہوں ہنس دیتا ہوں
یعنی ہم جیسے بھی امید بقاء رکھتے تھے
سرفروشوں کے حوالوں پہ ہوا شک تو سنا
جن کا یہ ذکر ہے وہ لوگ حیا رکھتے تھے
عجز اظہار کو مانا ہے تیرے تیوروں سے
ہم کہاں خود سے یہ اخلاص روا رکھتے تھے
میر و غالب کو فقط نقل نہ کر غور سے پڑھ
یہی نسخے تھے جو تاثیرِ شفا رکھتے تھے
ہائے یہ ساز، یہ سماں، یہ تہی داماں
کیا زمانہ تھا کہ بس دست دعا رکھتے تھے
جب ہم آئے تو اسی قریۂ صد نفرت میں
در و دیوار محبت کی فضا رکھتے تھے
کیسے آراستہ تھے فیض و جگر کے دربار
پھر بھی وہ حضرت عالؔی کو سوا رکھتے تھے
جمیل الدین عالی
No comments:
Post a Comment