الزام میرے دل پہ ہے کیوں اشتباہ کا
سارا قصور ہے یہ فریبِ نگاہ کا
مجھ کو تلاش کرتے زمانہ گزر گیا
رہبر ملا نہ کوئی محبت کی راہ کا
میرے سرِ نیاز کو معراج مل گئی
میں خود تباہ ہونے لگا چل کے ساتھ ساتھ
مجھ کو صِلا ملا ہے یہ تجھ سے نباہ کا
بیتاب یہ نظر بھی ہے مضطر جگر بھی ہے
مارا ہوا ہوں اک نگہِ بے پناہ کا
ہر اک گناہ گار پر رحمت کی نظر ہے
کیوں کر نہ اعتراف کروں میں گناہ کا
بہزاؔد حسن چیز ہے کیا، ہے جمال کیا
اک کھیل ہے، فقط یہ ہماری نگاہ کا
بہزاد لکھنوی
No comments:
Post a Comment