مِری طرح خدا اس کو بے مزا نہ رکھے
پہ مطمئن بھی بچھڑ کر اسے خدا نہ رکھے
جلا کے رکھے دعا کے چراغ پلکوں پر
فقیر وہ ہے جو لفظوں میں مدعا نہ رکھے
تو سر کا بوجھ بھلا کس لیے اٹھا کے پھرے
وہ دھان پان سی لڑکی رکھے گی پاسِ وفا
سنبھال کر جو بدن پر کبھی رِدا نہ رکھے
نکال کر جو ہتھیلی پہ اپنا دل رکھ دے
پسِ سکوت وہی قبر پر دِیا نہ رکھے
میں ابنِ ارض ہوں میرا نسب مِری مٹی
جو خاک زاد نہیں مجھ سے سلسلہ نہ رکھے
خدا کسی پہ نہ لاۓ یہ وقت، ہجر کا وقت
ہمارے بعد کسی کو خدا جدا نہ رکھے
وہی رکھے درِ ثاقب سے افتخار نیاز
جو شخص اپنی طبیعت قلندرانہ رکھے
افتخار مغل
No comments:
Post a Comment