دھڑ اپنا لیے پھرتے ہیں سر اور کسی کا
جیون تو جیا ہم نے، مگر اور کسی کا
بنیاد تو اپنی تھی، عمارت نہیں اپنی
دیواریں ہماری ہیں پہ در اور کسی کا
یوں کیوں ہے کہ ہم سہمے ہوئے رہتے ہیں
میں ایسے تضادات میں کب تک جیوں آخر
منظر مِرا اور عکسِ نظر اور کسی کا
یہ آگ پہنچ جائے گی خود انکے گھروں تک
وہ لوگ جلاتے ہیں جو گھر اور کسی کا
افتخار مغل
No comments:
Post a Comment