Sunday, 2 August 2020

دھڑ اپنا لئے پھرتے ہیں سر اور کسی کا

دھڑ اپنا لیے پھرتے ہیں سر اور کسی کا
جیون تو جیا ہم نے، مگر اور کسی کا
بنیاد تو اپنی تھی، عمارت نہیں اپنی
دیواریں ہماری ہیں پہ در اور کسی کا
یوں کیوں ہے کہ ہم سہمے ہوئے رہتے ہیں
یوں کیوں ہے کہ گھر لگتا ہے گھر اور کسی کا
میں ایسے تضادات میں کب تک جیوں آخر
منظر مِرا اور عکسِ نظر اور کسی کا
یہ آگ پہنچ جائے گی خود انکے گھروں تک
وہ لوگ جلاتے ہیں جو گھر اور کسی کا

افتخار مغل

No comments:

Post a Comment