Monday, 3 August 2020

اس بار اس نے رنج جدائی نہیں دیا

اس بار اس نے رنجِ جدائی نہیں دیا
بچھڑے تو کوئی رنج دکھائی نہیں دیا
وہ کر رہا تھا لطف مگر بے دلی کے ساتھ
دل نے مجھے بھی اذنِ رسائی نہیں دیا
ترکِ تعلقات پہ مائل تھے ہم، مگر
رستہ کسی کو کوئی دکھائی نہیں دیا
ہم مطمئن تھے ترکِ مراسم کے موڑ پر
دامن پہ کوئی داغ دکھائی نہیں دیا
کچھ تو ضرور اس نے کہا تھا دمِ فراق
دل میں وہ شور تھا کہ سنائی نہیں دیا
اپنے کئے پہ خود وہ پشیمان تھا سلیم
طعنہ اسے کبھی، مِرے بھائی نہیں دیا

صفدر سلیم سیال

No comments:

Post a Comment