قصیدۂ پری ناز
التجا ہے گُلوں کی ہوائے ہَرو٭
بس کہ سردارِ خوباں کا اب ذکر ہو
سب سے نازاں کلی حسن آباد کی
رشکِ حوراں تھی دختر ملک داد کی
تین بھیّوں کی اکلوتی ہمشیر وہ
اپنی ماں کی جوانی کی تصویر وہ
بے بہا روپ یوں تھا پری ناز کا
ہر طرف اک فسوں تھا پری ناز کا
خوش درازی میں بے مثل تھی زلفِ مہ
سر سے کولہوں تلک آبشارِ سیہ
سحرِ کاکُل تھا وہ خوشبوؤں کا خمار
جیسے مہکے اماوس میں لپٹی بہار
نازِ رخ تھیں عجب حشر سامانیاں
زندگی کی علامت تھیں پیشانیاں
آنکھ حیران، گہری، حسین و جمیل
جیسے اونچے پہاڑوں کی مشتاق جھیل
تازگی میں تھا یوں ان لبوں کا حساب
جیسے رہ رہ کے کھلتے ہوں تازہ گلاب
ایسی رنگیں تھی رخسارِ مہ کی چمک
جیسے اترے ہمالے کے رُخ پہ شفق
سرخ گالوں پہ ڈِمپل اِدھر اک اُدھر
جن کا پانی بھریں خود ہرو کے بھنور
ناک ستواں تھی ایسی حسیں الاماں
رشک سے مر مِٹیں رُوم کی دیویاں
اس کا اٹھتا گلا شانے سے متصل
ناز میں جس کے اٹکا تھا ہنسوں کا دل
باغ تھے سیر کا اس کے ساماں کوئی
جیسی باغوں میں ہرنی خراماں کوئی
حسنِ قدرت سے یوں برملا عشق تھا
اس کو پھولوں سے بے انتہا عشق تھا
فصلِ گُل کا تکلف جہاں خاص تھا
باغ کا ایک گوشہ اسے راس تھا
باغ کے بیچ میں ایک بارہ دری
جس پہ محفل سجاتی وہ نازاں پری
اس کی سکھیاں پہاڑوں کی شہزادیاں
جن پہ مرتی تھیں حُسن آفریں وادیاں
ذوقِ شعر و سخن بھی شرف تھا اُسے
رقص و موسیقی سے بھی شغف تھا اُسے
الغرض کیا کہوں کہ وہ کیا حسن تھا
سر سے پاؤں تلک ماوراء حسن تھا
سعید خان
٭ہرو: ہری پور کی وادیوں میں بہتا دریائے ہرو جو کہ خانپور ڈیم کا منبع بھی ہے، جو آگے جا کر ضلع اٹک کے علاقوں کو سیراب کرتا دریائے سندھ میں جا شامل ہو جاتا ہے۔۔
(Haro River)
No comments:
Post a Comment