ہزار قصے تھے داستانوں میں رہ گئے ہیں
ہمارے یوسف تو قید خانوں میں رہ گئے ہیں
تمہارے آگے جو چُپ کھڑے ہیں، یہ بُت نہيں ہیں
پلٹ کے دیکھو کہ ہم چٹانوں میں رہ گئے ہیں
حضور کہنا، کسی کا جُھک کر سلام کرنا
یہ رکھ رکھاؤ بھی کچھ گھرانوں میں رہ گئے ہیں
وہ لوگ جن سے چراغ روشن تھے، باغ روشن
کوئی بتائے گا، کِن زمانوں میں رہ گئے ہیں
اگر کہو تو میں پینٹ کر کے دکھاؤں، عامی
وہ قہقہے بھی، جو قہوہ خانوں میں رہ گئے ہیں
عمران عامی
No comments:
Post a Comment