وہ وقت جو تِری آغوش میں گزارا ہے
اسی کی یاد مِری زیست کا سہارا ہے
وقارِ خونِ شہیدانِ کربلا کی قسم
یزید مورچہ جیتا ہے، جنگ ہارا ہے
نشاطِ دل کیلئے جب بھی کوششیں کی ہے
کسی کی یاد نے احساسِ غم ابھارا ہے
کسی کو موردِ الزام کیسے ٹھہرائیں
ہمیں خود اپنی ہی کوتاہیوں نے مارا ہے
ہم آج تک نہ سمجھ پائے ہیں کہ دنیا میں
وہ کون ہے جسے ہم کہہ سکیں ہمارا ہے
یہ خواب ہے کہ کہیں ہونا جائیں ہم بدنام
وگرنہ ضبطِ محبت کا کس کو یارا ہے ہے
جو بات حق ہے وہی کہہ رہا ہوں اے راہی
مگر یہ بات زمانے کو کب گوارا ہے
دواکر راہی
No comments:
Post a Comment