طنزیہ شاعری
کیسی تقسیم تھی، سب ایک ہی گھر کے نکلے
تیرے دربار سے جو جھولیاں بھر کے نکلے
دشت کو روند کے دریاؤں کو بھی پار کیا
اپنے پاؤں تو کسی اور سفر کے نکلے
جن کی دستار کو میں چُوم لیا کرتا تھا
وقت بدلا تو وہ دُشمن مِرے سر کے نکلے
ہم کو درکار تھی چھاؤں سو عطا کی اس نے
بعد میں لاکھ بھلے شجرے شجر کے نکلے
بکھری زُلفوں سے چُھپاتے ہوئے چہروں کے نقوش
گدڑیوں والے حسیں چاند نگر کے نکلے
بد دُعا دیتے ہوئے اشک بہاتا تھا بہت
ہم تِرے شہر کے مجذوب سے ڈر کے نکلے
ہائے وہ لوگ کفن کا جنہیں ٹکڑا نہ ملا
ہائے وہ لوگ جو زِندان سے مر کے نکلے
راکب مختار
Friday, 27 October 2023
کیسی تقسیم تھی سب ایک ہی گھر کے نکلے
Labels:
راکب مختار
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment