Tuesday, 31 October 2023

چمن کے بقا کی مری آرزو ہے

 چمن کے بقا کی مِری آرزو ہے

جہالت غضب کی مِرے چار سُو ہے

خدا جانتا ہے مِرے واسطے خیر ہوگی

کہ ایمان میرا تو لا تقنطوا ہے

ترانہ وطن کی محبت کا گائے

وہ جو گُلستاں میں رہا با وُضو ہے

چمن کو شہیدوں نے سینچا لہو سے

انہی کے لہو سے چمن کی نمو ہے

خدایا! مِرا دیس اب جل رہا ہے

عطا کیجیے آپ جو صلح جُو ہے

یہ لہجہ تِرا زہر آلود ہے کیوں؟

تُو کیوں اس قدر ترش و تُند خُو ہے

کسی بد نظر نے لگائی نظر یوں

یہاں چار سُو ہو رہی ہاؤ ہُو ہے

وطن کی محبت سے معمور دل ہی

خدا کے کرم سے ہوا سرخرُو ہے


عباس علی شاہ ثاقب

تعارف

قارئین آج آپ کے ساتھ نوجوان شاعر عباس علی ثاقب صاحب کی غزل بانٹتے ہیں۔ ان کا مکمل نام عباس علی شاہ ثاقب ہے، آپ یکم جون 1992 پیدا ہوئے، بی- اے گورنمنٹ فریدیہ کالج پاک پٹن، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ بعد ازاں ایم- اے اردو اور ایم- اے فزیکل ایجوکیشن کی تعلیم حاصل کی۔ آپ عملی زندگی میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس سے "پاکستان میں اردو حمدیہ قصیدہ نگاری" کے موضوع ایم فل اردو کا مقالہ بھی تحریر کیا ہے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق جب وہ سال چہارم میں تھے جب ان کی غزل "المسعود" میں شائع ہوئی تھی، اس کے علاوہ بھی آپ کا کلام اور تنقیدی مضامین ملک کے معروف رسائل و جرائد، "فن زاد، مفاہیم، نالۂ دل، نیرنگ خیال، نکھار، غنیمت، اظہار" میں شائع ہو چکے ہیں۔ عباس علی ثاقب 2022 میں ادبی تنظیم "اظہارِ نو" کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکےہیں۔ آپ شاعری میں نئے امکانات و رجحانات کے متلاشی ہیں اور فن شاعری میں آپ پروفیسر نوید عاجز اور محمد شریف ساجد سے مشورۂ سخن کرتے ہیں۔ 

مِری شاعری کا تُو عنوان ہو گا

تمہی سے یہ منسوب دِیوان ہو گا

No comments:

Post a Comment