چند دن آدمی خوشیوں میں جہاں رہتا ہے
پھر تو نیندوں میں بھی میلے کا سماں رہتا ہے
ہم تِرے شہر میں رہتے ہیں تو بس تیرے لیے
بِھیڑ میں گاؤں کا کوئی شخص کہاں رہتا ہے
تجھ کو دیکھوں تو عطا ہوتی ہے بِینائی مجھے
تیرے ہونے سے قلم میرا رواں رہتا ہے
دوستا!، رائے عدالت کی بدل سکتی ہے
میرے کمرے میں پڑے خط کا بیاں رہتا ہے
اک حسِیں شخص جو رہتا تھا برابر میرے
اب وہی شخص خدا جانے کہاں رہتا ہے
اب مروت سے تِرا ملنا بھی لگتا ہے فضول
زخم بھر جائے مگر دوست نشاں رہتا ہے
کتنے غم دفن ہوئے آ کے مِرے سینے میں
اک تِرا غم کہ جو برسوں سے جواں رہتا ہے
آفاق خالد
No comments:
Post a Comment