Tuesday 31 October 2023

خاک تھے غنچہ لب اور خواب تھی لہجے کی کھنک

 خاک تھے غنچہ لب اور خواب تھی لہجے کی کھنک

جھڑ گیا قبر میں جب حُسنِ سراپا کا نمک

وہ جن آنکھوں میں تھی برسات کے منظر کی جھلک

اب ان آنکھوں میں سفیدی نہ سیاہی نہ دھنک

وہ صراحی سی جو گردن کی ہے ٹُوٹی پُھوٹی

وہ کمر ہی نہ رہی جس میں کہ پیدا ہو لچک

قبر کی خاک ہی غازہ ہے وہی زینت ہے

واں نہ افشاں نہ ہی سُرخی نہ ہی جھومر نہ تلک


خالد اقبال تائب

No comments:

Post a Comment