عشق تیرے دھیان سے آگے چلا گیا
یہ مسئلہ میری جان سے آگے چلا گیا
ضائع نہ کیجیے وقت حساب کتاب میں
مسئلہ نفع نقصان سے آگے چلا گیا
اتنے جنون میں مانگا تجھے خدا سے
ہاتھ میرا آسمان سے آگے چلا گیا
دنیا کم پڑ گئی تھی تیری تلاش میں
میں بھٹکا تو پرستان سے آگے چلا گیا
تم سے گریزاں تھے منظور نہ ہوا
میں اپنے خاندان سے آگے چلا گیا
برسات میں بھی رہ گیا پیاسا صحرا
وہ آیا، میرے مکان سے آگے چلا گیا
سرِ مقتل رُکے تھے قدم سرفروشوں کے
تیرا دیوانہ بڑی شان سے آگے چلا گیا
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment