وہ جس دم عمر تھی بالک ہماری
سنہری آنکھ تھی گاہک ہماری
بہت چھپتے رہے بالآخر اک دن
ہویدا ہو گئی چشمک ہماری
دلوں سے دل ملے تھے جس گھڑی تب
بہت ہی تیز تھی دھک دھک، ہماری
لکیروں میں بہت موتی پروئے
مگر وہ بخت کی کالک ہماری
بچھڑتے ہی گئے سب ملنے والے
کوئی سہتا بھی کیوں جھک جھک ہماری
کسی کُنڈی سے لگ کر رو رہی ہے
تِری دہلیز پر دستک ہماری
نہیں آ پائیں گے دوبارہ ہم، خود
خبر ہی آئے گی تم تک ہماری
تماشہ ختم ہونے کو ہے سعدی
کوئی دم اور ہے بک بک ہماری
رضا اللہ سعدی
No comments:
Post a Comment