یہ کون آیا کہ ماحول کیا سے کیا ہُوا ہے
جہاں جہاں پہ تھا پتھر، وہ آئینہ ہوا ہے
فنا بھی اس کو ہو شاید سکون کا باعث
یہ دل کہ عشق میں دُشمن کے مبتلا ہوا ہے
اسے تو پُھولنا، پھلنا ہے تا دمِ آخر
یہ غم نصیب کے اندر کہیں اُگا ہوا ہے
گِرہ لگی ہوئی ہے سانس اور دھڑکن کی
حیات و موت کا دھاگا ابھی بندھا ہوا ہے
تُو چاہ کر بھی نہ ٹُھکرا سکے گا اب اس کو
تِرا خیال مِرے عشق میں گُندھا ہوا ہے
عارف فرہاد
No comments:
Post a Comment