Saturday, 28 October 2023

یہ کون آیا کہ ماحول کیا سے کیا ہوا ہے

 یہ کون آیا کہ ماحول کیا سے کیا ہُوا ہے

جہاں جہاں پہ تھا پتھر، وہ آئینہ ہوا ہے

فنا بھی اس کو ہو شاید سکون کا باعث

یہ دل کہ عشق میں دُشمن کے مبتلا ہوا ہے

اسے تو پُھولنا، پھلنا ہے تا دمِ آخر

یہ غم نصیب کے اندر کہیں اُگا ہوا ہے

گِرہ لگی ہوئی ہے سانس اور دھڑکن کی

حیات و موت کا دھاگا ابھی بندھا ہوا ہے

تُو چاہ کر بھی نہ ٹُھکرا سکے گا اب اس کو

تِرا خیال مِرے عشق میں گُندھا ہوا ہے


عارف فرہاد

No comments:

Post a Comment