زعفرانی کلام
پردہ نہ اٹھا
آبکاری سے نہ ڈر، دوش پہ میخانہ اُٹھا
اک قدم یوں بھی تو اے جرأتِ رِندانہ اٹھا
اس کو آتی نہ تھی ایمان فروشی شاید
پڑھ کے لاحول تِری بزم سے دیوانہ اٹھا
تھی جو زردار بہو ساس سے وہ دب نہ سکی
لاکھ کوشش پہ بھی نہلے پہ دہلا نہ اٹھا
برقع اُترا، ہوئی میک اپ کی ضرورت لاحق
میں نہ کہتا تھا مِری جان! یہ پردہ نہ اٹھا
آج کل جو نہ پیۓ، ہو نہیں سکتا کلچرڈ
تُو بھی مسٹر جو بنا چاہے تو پیمانہ اٹھا
مسٹر دہلوی
No comments:
Post a Comment