کسی نے کی یار کی گُفتگو، یاد آیا
دشت کو میں، مجھے تُو، یاد آیا
پُوچھی زندگی نے بے رُخی کی وجہ
میں نے کہا تھا ناکام آرزُو، یاد آیا
چاند دیکھا آسماں پر تو تیری یاد آئی
زمیں پر تُو گُل کے رُو برُو، یاد آیا
رات تیری یاد نے اتنا کیا بے کل
بعد مُدت کے جام و سبُو، یاد آیا
شہر چھوڑا تھا تیری یاد سے تنگ آ کر
تُو ہی قریہ بہ قریہ کُو بہ کُو، یاد آیا
سُنا تھا صحرا و سراب ہیں لازم و ملزوم
حقیقت ہے تُو مجھے چار سُو نظر آیا
حنائی ہاتھ دیکھ کر یہ حادثہ ہوا آفتاب
ہمیں کسی کے ہاتھ پہ اپنا لہُو، یاد آیا
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment