Sunday, 22 October 2023

اٹھتے ہیں قدم تیز ہوا ہے مرے پیچھے

 اُٹھتے ہیں قدم تیز ہوا ہے مِرے پیچھے

لگتا ہے کوئی قافلہ سا ہے مرے پیچھے

جس بزم میں جاتا ہوں مجھے ملتی ہے عزت

وہ یوں کہ مِری ماں کی دُعا ہے مرے پیچھے

بے منزل مقصود میں غلطاں ہوں سفر میں

افسوس زمانے تُو چلا ہے مرے پیچھے

مُڑنا ہے مجھے موڑ محبت کے نگر کو

گاؤں کی مِرے آب و ہوا ہے مرے پیچھے

یہ دھُوپ ہے جو سر کو مرے ڈھانپ رہی ہے

یہ سایہ مِرا ہے کہ چُھپا ہے مرے پیچھے

کہتا ہے مجھے؛ آپ سے آگے نہیں چلنا

اس طور زمانہ یہ پڑا ہے مرے پیچھے


عرفان اللہ

No comments:

Post a Comment