Thursday, 26 October 2023

سایہ سا اک خیال کی پہنائیوں میں تھا

 سایہ سا اک خیال کی پہنائیوں میں تھا

ساتھی کوئی تو رات کی تنہائیوں میں تھا

ہر زخم میرے جسم کا میرا گواہ ہے

میں بھی شریک اپنے تماشائیوں میں تھا

غیروں کی تہمتوں کا حوالہ بجا، مگر

میرا بھی ہاتھ کچھ مِری رُسوائیوں میں تھا

ٹُوٹے ہوئے بدن پہ لکیروں کے جال تھے

قرنوں کا عکس عمر کی پرچھائیوں میں تھا

گردابِ غم سے کون کسی کو نکالتا

ہر شخص غرق اپنی ہی گہرائیوں میں تھا

نغموں کی لَے سے آگ سی دل میں اتر گئی

سُر رُخصتی کے سوز کا شہنائیوں میں تھا

راسخ تمام گاؤں کے سُوکھے پڑے تھے کھیت

بارش کا زور شہر کی انگنائیوں میں تھا


راسخ عرفانی

No comments:

Post a Comment