کتنی آسانی نکل آتی ہے دُشواری سے
دل شفایاب ہوا ہِجر کی بیماری سے
تیرے خط جتنی تہوں میں بھی چُھپا کر رکھوں
تیرے ہاتھوں کی مہک آتی ہے الماری سے
وہی آنکھوں میں کوئی بُھوک درندوں جیسی
خُوش لباسی میں بھی لہجے وہی بازاری سے
تیرے چہرے سے کسی روز یہ اُترے گا نقاب
بے خبر ہے یہ جہاں تیری اداکاری سے
زخم پُھولوں کی طرح دل میں کِھلے جاتے ہیں
گُل فشانی ہے تِرے غم کی شجر کاری سے
صائمہ نورین بخاری
No comments:
Post a Comment