Friday, 27 October 2023

رنگ و صفات یار میں دل ڈھل نہیں رہا

 رنگ و صفاتِ یار میں دل ڈھل نہیں رہا

شعلوں کی زد میں پُھول ہے اور جل نہیں رہا

وہ دُھوپ ہے کہ پیڑ بھی جلنے پہ آ گیا

وہ بُھوک ہے کہ شاخ پہ اب پھل نہیں رہا

لے آؤ میری آنکھ کی لَو کے قریب اسے

تم سے بُجھا چراغ اگر جل نہیں رہا

ہم لوگ اب زمان و زمانہ سے دُور ہیں

یعنی یہاں پہ وقت بھی اب چل نہیں رہا

تعمیر ہو رہے ہیں وہاں پر نئے مکان

صحرا سمٹ رہا ہے، مِرا تھل نہیں رہا

بہتر ہے والدین کی جاگیر بانٹ لیں

آپس کے انتشار کا جب حل نہیں رہا


مستحسن جامی

No comments:

Post a Comment