شہر ویراں کے آسیب کا سایہ
مگر
شہر ویراں
تمہارے گھروں مقبروں کی منڈیروں چھتوں پر
جو بوڑھے پرندوں کی سرگوشیاں ہیں
بھٹکتی ہیں دن رات میرے سرہانے
کوئی اجنبی
غیر مانوس آواز کہتی ہے
خدا جب زمینوں پہ اترا تھا
بوڑھے پرندوں کو موت آ گئی تھی
جبھی شہر ویراں کی بے حد پرانی
فصیلوں میں گونگی دراڑیں پڑی تھیں
دراڑیں جو کھینچیں نسوں سے حرارت
اور ایسے میں شہر حزیں کے سبھی
باسیوں نے پناہ مانگ لی تھی
دراڑوں کے شر سے
پرانے شہر سے
نئے موسموں کی
حرارت نسوں میں پلٹ آئی
کرنوں نے سورج کو پیدا کیا
اور سورج نے رنگوں کو تقسیم کر کے
جو نقشے جنے
ان سے چہرے بنے
چہروں نے گونگی دراڑوں کو آواز دی
اور سجائے بڑے ہی جتن سے
گلی اور محلے
کھرچ کر نشاں سارے ماضی کے تیرے بدن سے
نمک پاش چہروں نے ٹسوے بہائے
مساجد مدارس میں تاریخ ناموں کے پہرے بٹھائے
مگر شہر ویراں
میں وہ شور بخت ہوں
جو بوڑھے پرندوں کی سرگوشیوں میں
تمہارے بطن کی خامشی سن رہی ہوں
رنگا رنگ پردوں کے پیچھے کی ویرانیاں
چن رہی ہوں
کومل راجہ
No comments:
Post a Comment