Monday, 30 October 2023

شہر ویراں کے آسیب کا سایہ

شہر ویراں کے آسیب کا سایہ


مگر

شہر ویراں

تمہارے گھروں مقبروں کی منڈیروں چھتوں پر

جو بوڑھے پرندوں کی سرگوشیاں ہیں

بھٹکتی ہیں دن رات میرے سرہانے

کوئی اجنبی

غیر مانوس آواز کہتی ہے

خدا جب زمینوں پہ اترا تھا

بوڑھے پرندوں کو موت آ گئی تھی

جبھی شہر ویراں کی بے حد پرانی

فصیلوں میں گونگی دراڑیں پڑی تھیں

دراڑیں جو کھینچیں نسوں سے حرارت

اور ایسے میں شہر حزیں کے سبھی

باسیوں نے پناہ مانگ لی تھی

دراڑوں کے شر سے

پرانے شہر سے

نئے موسموں کی

حرارت نسوں میں پلٹ آئی

کرنوں نے سورج کو پیدا کیا

اور سورج نے رنگوں کو تقسیم کر کے

جو نقشے جنے

ان سے چہرے بنے

چہروں نے گونگی دراڑوں کو آواز دی

اور سجائے بڑے ہی جتن سے

گلی اور محلے

کھرچ کر نشاں سارے ماضی کے تیرے بدن سے

نمک پاش چہروں نے ٹسوے بہائے

مساجد مدارس میں تاریخ ناموں کے پہرے بٹھائے

مگر شہر ویراں

میں وہ شور بخت ہوں

جو بوڑھے پرندوں کی سرگوشیوں میں

تمہارے بطن کی خامشی سن رہی ہوں

رنگا رنگ پردوں کے پیچھے کی ویرانیاں

چن رہی ہوں


کومل راجہ

No comments:

Post a Comment