دل سے دل لگ گیا دل لگی ہو گئی
ہوتے ہوتے یونہی عاشقی ہو گئی
ہجر کی دُھوپ میں رنگ کُملا گیا
اک سفید اپسرا سانولی ہو گئی
ایک دن اجنبی، اجنبی سے ملا
اور پھر یوں ہوا دوستی ہو گئی
دوسری بار بھی عشق پہلی سے ہے
تھی جو پہلی وہی دوسری ہو گئی
ہم محبت کو اک کھیل کہتے رہے
اور پھر یوں ہوا واقعی ہو گئی
اب کے رُسوائیوں کا مجھے بھی ہے ڈر
میری حالت بھی اب آپ سی ہو گئی
کیا کہا لکھ کے دوں پیار کرتا ہوں میں
کیا محبت بھی اب کاغذی ہو گئی
ابر کی اوٹ میں چاند پھر چُھپ گیا
ایک دن سامنے وہ کھڑی ہو گئی
عشق کی آگ میں دل ہمارے جلے
دل جلا میں تو وہ دل جلی ہو گئی
تیری باتیں میں خود کو سُناتا رہا
دیکھتے دیکھتے شاعری ہو گئی
چاند میرے گلے سے لگا یوں اسد
آنکھ سے رُوح تک روشنی ہو گئی
عمران اسد
No comments:
Post a Comment