رات آنگن میں چاند اترا تھا
تم ملے تھے کہ خواب دیکھا تھا
اب کہ خود ہیں حصار ذات میں بند
ورنہ اپنا بھی زور چلتا تھا
شیشۂ دل پہ ایسی چوٹ پڑی
ایک لمحے میں ریزہ ریزہ تھا
اس کے کوچے کے ہو لیے ورنہ
راستہ ہر طرف نکلتا تھا
رت جو بدلی تو یہ بھی دیکھ لیا
پتہ پتہ زمیں پہ بکھرا تھا
ایک خوشبو ہے جانی پہچانی
اس خرابے میں کون رہتا ہے
موم کی طرح وہ پگھل سا گیا
وہ جو پتھر کی طرح لگتا تھا
اب کہ سنتے نہیں ہو بات مگر
پھر کہو گے کہ کوئی کہتا تھا
رات سنسان تھی مگر نادر
حشر سا دل میں ایک برپا تھا
اطہر نادر
No comments:
Post a Comment